آنے والی نسل کا تو بیڑا غرق ہی سمجھیں، کیونکہ اُن کے سیانے بزرگ ہم ہوں گے

آنے والی نسل کا تو بیڑا غرق ہی سمجھیں، کیونکہ اُن کے سیانے بزرگ ہم ہوں گے۔

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میں نے کیا بات کہہ دی تو معزز قارٸین کرام یہ نا صرف ایک کڑوا سچ ہے بلکہ لمحہِٕ فکریہ ہے۔
میں نے کچھ دن پہلے ایک پوسٹ شیٸر کی تھی جس میں نٸی صدی کی پہلی پیڑی اور پچھلی صدی کے آخری لوگوں کا ذکر کیا تھا۔ اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔۔
ہم نے زندگی میں بہت کچھ اپنے آباٶ اجداد سے سیکھا، ہمارے گھروں کے بزرگ بچپن میں ہمیں قصص الانبیا ٕ اور اسلام کی تاریخ پر مبنی کہانیاں سنایا کرتے تھے اور وہ سب انہیں زبانی یاد ہوتی تھیں، ہمارے مطالعے کے لیے اسلامی، معلوماتی اور اصلاحی کتب لا کر ہمیں دی جاتی تھیں اور پڑھنے کی تاکید کی جاتی تھی، کسی نہ کسی بات پر یا موقع پر ہمیں محاورے سناۓ جاتے تھے اور ان کا مطلب بھی سمجھایا جاتا تھا، ہزاروں روپوں کا حساب بنا کسی حُجّت اور کیلکولیٹر کے کیا جاتا تھا، اپنے رشتہ داروں کے لینڈلاٸن نمبر گھر کے تقریباً ہر فرد کو یاد ہوتے تھے۔ ایک دوسرے سے رابطے کے لیے خطوط لکھے جاتے تھے اور چونکہ خط کا مطلب آدھی ملاقات ہوتا ہے اس لیے خط کے مضمون کو بہت عمدہ طریقے سے لکھا جاتا تھا اور الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا تھا۔ الغرض بہت سی چیزیں ہیں جو ناپید ہو چکی ہیں، اس میں سب سے پہلے ہمارا قصور ہے اور پھر نٸی ایجاد جو کہ اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یعنی کہ موباٸل فون کا ہے۔
میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اپنے اباٶ اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوۓ اسلامی، اصلاحی یا تاریخی کہانیاں سناتے ہیں؟ اس کے برعکس ہم تو اپنے بچوں کو ٹوٸنکل ٹوٸنکل اور بابا بلیک شیپ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور زبان قوم کا فخر اور ورثہ ہوتی ہے لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس بات کو سرے سے ہی نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ اگر آج کے میڑک کے بچے سے خط لکھنے کا بولیں گے تو اس کا لکھا ہوا خط، خط نہیں لگے گا کیونکہ اس بچے کو خط کا مضمون ہی نہیں معلوم۔ ہم اپنے بچوں کو صرف اور صرف انگریزی سیکھنے کے لیۓ زور دیتے ہیں اور اپنی قومی زبان کو فراموش کر چکے ہیں، میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگِز نہیں کہ انگریزی نہ سکھاٸی جاۓ بلکہ اسی طرح اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جاۓ۔

اب اگر میں یہ پوچھوں کہ ہم میں سے کتنے فیصد لوگوں نے اپنے بچوں کو نصاب سے ہٹ کر اسلامی یا تاریخی کتب مطالعہ کے لیے خرید کر دی ہیں تو اکثریت اپنا گریبان جھانکنے لگے گی۔ ہم اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کیونکہ مجھ سمیت ہر چھوٹے اور بڑے کے ہاتھ میں موباٸل فون ہے اور وہ اسی موباٸل سے فیسبک، ٹوٸیٹر یا گوگل کھول کر اپنے ہر سوال کا جواب ڈھونڈ نکالے گا۔ میں مانتا ہوں کہ گوگل کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن عزیزانِ گرامی گوگل کا ہر جواب درست نہیں ہے۔ اس کا بہترین حل معیاری کُتب ہیں، اور کتاب کے پاس موجود ہونے کے فواٸد بھی اپنی اہمیت کے الگ حامل ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے کہ آج کے بچوں کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی اور اس کے برعکس آج کے ہمارے بچّے موباٸل پر گیم کھیل کر یا memes بنا کر اپنے قیمتی وقت کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی اس نٸی پیڑی کو کتابوں کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاۓ اور تعلیمی نصاب سے ہٹ کر دیگر کتب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلایں۔ موباٸل فون آج کے دور کی ضرورت ضرور ہے لیکن ہم نے اسے اپنی کمزوری اور مجبوری بنا لیا ہے، یہ موباٸل فون ہماری تہذیب، ثقافت، روایات، محبت کے احساسات اور رشتوں کی مٹھاس کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگاٸیے کہ بہت سے لوگوں کو مشکل سے اپنے نمبر کے علاوہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کا نمبر یاد ہو گا۔ فرض کریں آپ اپنے شہر سے دور کہیں سفر میں ہیں اور آپ کا موباٸل کسی وجہ سے خراب یا گُم ہو جاتا ہے تو آپ اپنے اہلِ خانہ سے کیسے رابطہ کریں گے کیونکہ آپ کو تو کسی کا نمبر یاد ہی نہیں ہے، یہ صرف ایک مثال دی ہے میں نے۔ یہی حال ہماری آنے والی نٸی پیڑی کا ہوگا۔ لکھنے کو تو بہت کچھ باقی ہے لیکن میں آپ کے وقت اور مصروفیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوۓ یہیں پر اختتام کرتا ہوں۔ امید ہے آپ میری باتوں اور اس تحریر کے ابتداٸی جملے کا مطلب اچھی طرح سمجھ گٸے ہوں گے کیونکہ آنے والی نسل کے سیانے بزرگ تو بحرحال ہم ہی ہیں۔
والسلام

Share on:

Leave a Comment