ام ابان بن عتبہ بن ربیعہ کے شوہر جنگ اجنادین میں شہید ہوگئے، کہا جاتا ہے کہ ان کے شوہر کو ان کے ساتھ صرف دو راتیں بسر کرنے کا موقعہ ملا اور پھر شہید ہوگئے۔
جب ام ابان کی عدت پوری ہوگئی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام نکاح بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا۔
پوچھا گیا کس وجہ سے انکار کیا ہے تو کہا: وہ ترش رو آتے ہیں اسی طرح جاتے ہیں، ان کے دروازے بند رہتے ہیں اور ان کا مال بھی کم ہے۔
پھر ان کو حضرت زبیر بن العوم رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا تو ان کو بھی انکار فرما دیا، پوچھا گیا کیوں تو کہا کہ: ان کا ایک ہاتھ عورت کی چوٹی میں اور دوسرا کوڑے میں رہتا ہے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام نکاح دیا تو بھی انکار کر دیا پوچھا گیا کیا وجہ ہے؟ فرمایا: عورتوں کو ان سے صرف مباشرت ملتی ہے اور کچھ نہیں۔
پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا تو کہا یہ میرے لئے صحیح شوہر بننے کے حقدار ہیں، پوچھا گیا یہ کیسے؟
فرمایا کہ میں ان کے اخلاق سے باخبر ہوں، اگر آتے ہیں تو ہنستے مسکراتے اور جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے، اگر ان سے سوال کیا جائے تو عطا کرتے ہیں اور اگر آپ چپ رہیں تو وہ خود کلام کی ابتدا کرتے ہیں اور اگر آپ ان کا کوئی کام کریں تو وہ شکریہ ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے سہاگ رات گزار لی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابو محمد! ( یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ھے) اگر آپ اجازت دیں تو میں ام ابان سے کچھ بات کرلوں؟
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات کر لیں تو آپ گئے اور کہا: اے اپنے جان کو عزیز رکھنے والی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نے ہم میں سے جس کو چاہا انکار کر دیا اور ابن بنت الخضرمی (یہ بھی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ھے) سے شادی کرلی۔
تو ام ابان نے کہا قسمت کا فیصلہ ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہر حال آپ (کا انتخاب بہت عمدہ ہے آپ نے) ہم میں سب سے خوبصورت سے، سخی اور گھر والوں کے بارے میں سب سے بہتر سے شادی کی ہے۔
(دلچسپ ایمان افروز واقعات، ص: 33)