ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں؟ ہمارے بچے اور ہماری مسجدوں کا مستقبل

چھوٹے بچوں کو نہ تو عبادت سے غرض ہوتی ہے نہ تعلیم سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ہوٹلنگ وغیرہ انھیں اٹریکٹ کرتی ہے، انھیں صرف کھیلنے کودنے سے دلچسپی ہوتی ہے جو کہ ایک obvious بات ہے۔ اب زرا ایک پیٹرن پر غور کیجیے کہ بچوں اور بچوں والی فیملیز کو attract کرنے کے لیے کئی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بچوں کے لیے پلے ایریا بنارہے ہیں، اسکولوں میں تو چھوٹے بچوں کو تعلیم ہی پلے ایریاز میں دی جارہی ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ “اسمارٹ اور ذہین” لوگ ہیں۔

انھوں نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بھرپور ذہانت کا استعمال کیا ہے، یہ بچوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، اسکول جانتے ہیں کہ بچوں کو پلے ایریاز دکھا کر انھیں وہاں ایکٹیویٹی مہیا کرکے وہ بچوں کو کامیابی سے انگیج کرسکتے ہیں، بچہ انگیج ہوگیا تو ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی چل نکلے گا۔

میکڈونلڈز کی مثال لیجیے، وہاں آپ کو پلے ایریاز لازمی ملیں گے، وہ جانتے ہیں کہ بچے اپنے والدین سمیت یہاں کھیلنے کودنے آئیں گے تو چند ہزار کا بل ضرور بنا کر جائیں گے، میرا تعلق مارکیٹنگ اور برانڈنگ سے رہا ہے، انسانی (بچوں) نفسیات کا گہرا علم ان تمام بزنسز کی سیلز کو خوب بوسٹ دے رہا ہے۔

بچوں کے پلے ایریاز بنا کر، یہ سارے اسکولز، مالز، ریسٹورنٹس، بچپن سے ہی انھیں اپنا “عادی” بنا لیتے ہیں، یہ ایک انتہائی اسمارٹ اور (اپنے کاروبار کے حوالے سے) دور رس سوچ ہے جس کا انھیں زبردست فائدہ بھی ملتا ہے، افسوس کہ اس اسٹرٹیجک سوچ سے ہماری مسجدیں بالکل عاری ہیں۔

گلف ممالک، خاص کر ترکی وغیرہ میں، میں نے مسجدوں میں بچوں کو ہنستے کھیلتے دیکھا ہے، پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہاں کی مسجدیں بچوں کے لیے کسی قسم کی کوئی کشش نہیں رکھتیں، نتیجتاً ایک عام بچہ، شروع سے ہی مسجد کے حوالے سے بیزاری پال لیتا ہے، وہاں کا ماحول اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے، وہ وہاں سے جلد سے جلد نکل جانا چاہتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بچے کا باپ اسے زبردستی پکڑا بیٹھا رہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان خاص کر پاکستانی مسلمان اپنے دماغ کی بتیوں کو روشن کریں، بچوں کی نفسیات کو بغور اسٹڈی کریں، ان کی چوائسز کو سمجھیں، ہر کام آنکھ بند کرکے، صرف ثواب کی نیت سے کرنے کی بجائے، result oriented اپروچ کو اپنائیں، ہم پہلے اپنے بچوں کو مسجدوں سے بیزار کرتے ہیں انھیں ڈانٹ ڈپٹ کر ایک کونے میں بٹھاتے ہیں، جب وہ بچہ نفسیاتی طور پر مسجد سے متنفر ہوجاتا ہے تو بعد میں نمازیوں کی کم تعداد پر افسوس کرتے ہیں، یہ احمقانہ رویہ ہے۔

اسکولوں کی طرز پر، ہمیں بھی مسجدوں میں پلے ایریاز بنانے چاہئیں تاکہ ایک بچہ، بچپن سے ہی مسجد کے ساتھ ایک دلی کنیکشن ڈیویلپ کرلے، جیسے اسے شعور آئے گا، وہی کنیکشن اسے عبادت اور دین کی طرف خود بخود راغب کردے گا، میری نیت ہے کہ کبھی موقع ملا اور فنڈز دستیاب ہوئے تو اس طرح کی مسجد کے حوالے سے ضرور پلان کروں گا

Share on:

1 thought on “ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں؟ ہمارے بچے اور ہماری مسجدوں کا مستقبل”

Leave a Comment