منصور بن علی بیان کرتے ہیں کہ میرے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا جو دعوت پر بن بلائے میرے پیچھے پیچھے جاکر کھانا کھالیا کرتا تھا، دیکھنے میں اس کی شاندار شخصیت اور بولنے میں بڑا شیریں زبان، عمدہ خوشبو لگاتا تھا اور خوبصورت لباس پہنتا تھا اور اس کا معمول یہ تھا کہ جب مجھے کسی دعوت میں بلایا جاتا تو میرے پیچھے پیچھے چلا آتا۔
لوگ میری وجہ سے اس کی بھی عزت کرتے اور اس کو میرا دوست سمجھ لیتے تھے، ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ امیرِ بصرہ نے اپنے کسی بچہ کا ختنہ کرانے کے لئے معززینِ شہر کو مدعو کیا، میں نے دل میں منصوبہ بنایا کہ آج اگر وہ اسی طرح میرے پیچھے آیا تو آج میں اس کو ضرور رسوا کروں گا۔
جب قاصد نے آ کر مجھے پکارا اور میں کپڑے پہن کر ابھی گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہ بن بلایا مہمان گھر کے دروازے پر کھڑا تھا، وہ مجھ سے بھی پہلے تیار ہوچکا تھا، جب میں روانہ ہوا تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آنے لگا، جب ہم امیر کے مکان پر پہنچے اور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کھانے کی تیاری شروع ہوئی اور دستر خوان بچھائے گئے۔
ہر جماعت اپنے اپنے دستر خوان پر تھی اور وہ بن بلایا مہمان میرے ساتھ تھا، جب اس نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے کہا: ہم کو حدیث پہنچی دوست بن زیاد سے اور ان کو ابان بن طارق سے، ان کو نافع سے، ان کو ابن عمرو سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جو شخص کسی قوم کے مکان میں بغیر اس کی اجازت کے پہنچ جائے اور ان کا کھانا کھائے تو وہ داخل ہوگا چور بن کر اور نکلے گا لٹیرا بن کر۔
جب اس نے سنا تو بولا میاں اپنی غلطی کی اصلاح کرو، جو اس گفتگو میں تم سے سرزد ہوئی ہے، اس جماعت میں کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ سمجھے گا کہ تم نے یہ چھینٹا اسی پر مارنا چاہا ہے کسی دوسرے پر نہیں، تم کو اس بات کی بھی شرم نہیں آئی کہ تم ایک سردار کے دستر خوان پر یہ کلام کر رہے ہو جو کھانا کھلا رہا ہے اور تم دوسرے کے کھانے پر اپنے سوا اوروں کے لیے بخل کا اظہار کرتے ہو، پھر تمہیں اس سے بھی شرم نہ آئی کہ تم دوست بن زیاد سے حدیث کی روایت کر رہے ہو جو ایک ضعیف راوی مانا جاتا ہے اور وہ ابان بن طارق سے روایت کرتا ہے
جو متروک الحدیث ہے (یعنی محققین نے اس کی احادیث کو ناقابل اعتماد قرار دیا ہے) اور وہ ایسے حکم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہا ہے حالانکہ تمام مسلمان اس کے خلاف ہیں کیونکہ چور کے لیے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم ہے اور ڈاکو کا حکم یہ ہے کہ امام جو بھی سزا چاہے دے سکتا ہے (لیکن کھانا کھانے والے کے لیے شریعت میں کوئی سزا نہیں ہے) اور تم وہ حدیث بھول گئے ہو جو مروی ہے ابو عاصم النبیل سے، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریح سے، وہ روایت کرتے ہیں ابو زبیر سے، وہ روایت کرتے ہیں جابر سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ایک آدمی کا کھانا دو کو کافی ہوجاتا ہے اور دو کا چار کو اور چار کا آٹھ کو کافی ہوجاتا ہے اور اس حدیث کی اسناد بھی صحیح، متن بھی صحیح۔
منصور بن علی کہتے ہیں کہ اس نے مجھے خاموش کر دیا، مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا، جب ہم واپسی کیلئے وہاں سے باہر آئے تو وہ مجھ سے الگ ہو کر راستہ کے دوسرے کنارے پر چل رہا تھا اور یہ شعر پڑھ رہا ہے:
و مَن ظَنَّ ممن يلاقى الحروب
بأن لا يُصاب فقد ظنَّ عَجزا
ترجمہ: اور لڑائی میں شامل ہونے والے جس شخص نے یہ گمان کر لیا کہ اس پر کوئی وار نہ ہو سکے گا تو اس نے بیہودہ خیال کر لیا۔
لطائف علمیہ (ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ) اردو ترجمہ: کتاب الازکیاء، ص: 264