ہر رشتے کی بقاء کی بنیاد حکمت اور نصیحت پر ہے، حکمت یہ ہے کہ صحیح وقت، مقام اور موقع کے مطابق بات کرنا اور نصیحت بھی تب کارگر ہوگی جب حکمت کے مطابق دی گئی ہو۔
ہمارے بچے ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ انکے ساتھ ہمارا تعلق کامل ہو لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کوشش کے باوجود اچھی مائیں نہیں بن پارہی ہیں؟ وجوہات میں ہماری اپنی ذات کی کمزوری اور ہماری بچپن کی تربیت ہے۔
ماں کی خرابیاں
اگر میاں بیوی کا آپس میں تعلق اچھا نہیں یا سسرال میں معاملات درست نہیں تو یہ سب بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے.
ہمارا اپنا بچپن کیسا گزرا؟ اس کا اثر بچوں کی تربیت پہ ہوتا ہے، سخت گیر ماحول کی تربیت ہمارے اندر سختی لے آتی ہے یا پھر اسکے برعکس کہ بچوں کو بلکل کچھ بھی نہ کہنا، دونوں طریقے درست نہیں۔
غیر حقیقی امید یں
یہ سوچ رکھنا کہ میرا خیال ہے ایسا ہوگا یا میرا خیال ہے میرا بچہ ایسا نہیں کرسکتے وغیرہ اس طرز عمل سے والدین کا بچوں پہ hold نہیں رہتا۔
ہماری یہ غلط فہمی کہ فلاں پھوپھو کا اثر ہے یا یہ کہ فلاں چچا نے میرے بیٹے یا بیٹی کو بگاڑ دیا ہے، جن والدین کا بچوں کے ساتھ بہترین تعلق ہے یعنی بچے دوستوں کی طرح والدین سے ہر بات کرتے ہیں، انکے ہاں جب کسی اہم موقع کا فیصلہ لینا ہوتا ہے تو یہی بچے والدین کو والد یا والدہ نہیں بلکہ دوست کی ہی طرح ناقص العقل اور خود کو عقلمند سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اولاد اور والدین کے رشتے کی حدبندی (limit) نہیں سمجھ پاتے.
ہماری رول ماڈلنگ اچھی نہیں ہے
ہم خود کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، دوسروں کے سامنے کسی بات پہ ہم بچوں کو تو خوب پیار سے بلائیں اور گھر آتے ہی اسی بات پہ ڈانٹنا شروع کردیں، یہ ایک اور ہمارا بہت ہی نازیبا عمل ہے کہ دوسروں سے پوچھتے رہنا کہ بچوں کو قابو کیسے کرتے ہیں۔
انکی دینی و دنیوی لحاظ سے تعلیم و تربیت میں تناسب (balance) نہیں ہے یا تو انکو مخلوط (Co) تعلیم میں بھیج دیا کہ نئی طرز کا علم حاصل کرے اور دوسری جانب اسکی نماز روزوں پہ بھی تنقید کرنا۔
مسائل کا حل
بچوں کو TV اور موبائل سے ہٹ کر مواقع فراہم کریں کہ وہ کچھ نیا سیکھ سکیں، ہم نے بچوں کو ہر چیز پلیٹ میں سجا کردے دی ہے، بیٹھے بٹھاۓ ہر چیز انکو میسر ہوتی ہے۔
بچوں کو بےکار نہیں بنائیں، انکو اپنے چھوٹے چھوٹے کام خود کرنے دیں جیسے اپنے برتن سمیٹنا، بستر بنانا وغیرہ، انکو ہنر سکھائیں، کاملیت (Perfection) کے تصور سے باہر نکلیں، انکی معمولی غلطیوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں، غلطیوں سے انکو سیکھنے کا موقع دیں، انکو چیزوں کی اہمیت سے بڑھ کر انکی ذات کے وجود کی اہمیت (belonginigness) کا احساس دلائیں۔
موبائل اور دوسرے gadgets کی وجہ سے ہمارے بچے اردگرد کے ماحول سے بلکل بے خبر ہو چکے ہیں، انکے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کے بہانے خود تلاش کریں، آئس کریم منگوا لی یا انکی پسند کی کوئی اور چیز اور ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت بھی کرلی۔
قرآن یا حدیث کی کسی بات کا حوالہ دیتے وقت انکو بتائیں کہ اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ کیسے بن سکتی ہے، ہمارا بیٹا یا بیٹی کیسے نیک عمل کرکے ہمیں روز محشر نجات دلا سکتا ہے، ان کو بتائیں کہ بیٹا آپکے بغیر ہم جنت میں کیا کریں گے