سورہ یوسف کے ذریعے سات سال سے پندرہ سال کے بچوں کی تربیت

(تحریر: نائلہ جعفری)

اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی مزاق اور باتوں ہی باتوں میں ہر مشکل بات کا تزکرہ کر دینا میرے لیے آسان ہے لیکن بیٹوں کے ساتھ عموماً تعلقات پر بات کرتے ہوۓ مشکل یہ ہوتی کہ وہ بات کے آغاز سے ہی موضوع سمجھ کر شرم کی وجہ سے کہتے ہیں کہ جی جی ہمیں سمجھ آگیا اور پھر بات ادھوری ہی رہ جاتی اور میں اکثر سوچتی کہ میرے اندر گفتگو کرنے کی وہ صلاحیت نہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کسی موضوع پر طویل بات کر سکوں۔

یا پھر میں امید رکھتی کہ میرے شوہر بہت سے موضوعات ڈسکس کریں لیکن آج کل کی دنیا میں وقت کی کمی اور ورک ریلیٹڈ اسٹریس بہت سے والد صاحبان کو اس بات کا موقع کم ہی فراہم کرتی ہے بہرحال یہی بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ ماں اور باپ کم از کم سوچ ایک رکھتے ہوں اور جس کو بھی موقع ملے وہ بچوں سے ڈسکشن کرنے کو سنہری موقع سمجھے، کچھ ساتھیوں کے مشورے پر اپنے سات سال سے پندرہ سال کے چار بچوں کے ساتھ سورہ یوسف پر ڈسکشن کرنے کی منصوبہ بندی کی، وہی رحمن و رحیم ہے جس کی دی ہوئی توفیق اور ہمت سے تین دن سورہ یوسف کو ڈسکس کرتے ہوۓ میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ قرآن کو نوجوانوں کو ترجمے سے پڑھنا کتنا ضروری ہے اور اُن کے والدین کو بھی، جو کچھ مجھے سمجھ آیا حسبِ توفیق شئر کرتی ہوں:

والدین اور بچوں میں کمیونیکشن گیپ ہوتا ہے، بات کا انداز سمجھ نہیں آتا، اُن کی سمجھ بوجھ جاننے کا موقع نہیں ملتا، بچوں کے جوان ہونے کے ساتھ اُنہیں رشتوں میں حلال و حرام کا فرق سمجھانا آسان نہیں ہوتا لیکن اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں تو اللہ کریم نے والدین کے لئے بچوں کے ساتھ گفتگو کو اور مشکل اور پیچیدہ باتوں کو واقعات اور مثالوں کے زریعے بیان کرنا آسان کردیا ہے۔

ہم اپنی ہی اولاد سے گفتگو کے لئے کبھی کسی مینٹور کا سہارا لیتے ہیں کبھی ٹیچر کا کبھی کوی ٹیچنگ ریسورسز تلاش کرتے ہیں لیکن اگر ہم کچھ وقت قرآن کو سمجھنے پر لگائیں تو ہم خود ٹیچر، مینٹور اور لرننگ ریسورس بن سکتے ہیں، ہم جانیں کہ کیا لکھا ہے اور اپنے طریقے سے اپنے بچوں کی نفسیات سمجھتے ہوئے اُنہیں سمجھائیں۔

حضرت لقمان نے بیٹے کو کیا نصیحت کی کس انداز میں کی اور ترجیح کس بات کو دی، حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی تربیت کیسے کی، اُن سے کیا بات چیت کی اور اُن کے ساتھ مل کر کیا دعائیں مانگیں، حضرت یعقوب نے حضرت یوسف علیہ اسلام کو بھائیوں کی دشمنی سے کیسے خبردار کیا، حضرت موسی علیہ اسلام کی والدہ نے اپنی بیٹی سے کیا کام لیا اور اس کے علاوہ پیرینٹنگ کے بہت سے اسباق۔

بہت سے مشکل سوال جن کا تعلق عورت اور مرد کے تعلق، شرم و حیا، پاک دامنی، کردار کی مضبوطی سے ہے اُن کی وضاحت اور اُن کے جواب آپ زلیخا اور یوسف علیہ اسلام کے واقعے سے آپ کو ملیں گے۔

یہ سوالات اور ان کے جواب آپ کو اس واقعے کو پڑھتے ہوۓ ملتے جائیں اور ہلکے پھلکے انداز میں ان پر روشنی ڈالتے ہوۓ اپنے بچوں کی سوچ جانتے ہوۓ اُن کے جوابات سنتے ہوۓ اور اُن کو بہت آرام سے صحیح کانسیپٹ دیتے ہوۓ آپ آگے بڑھتے جائیں، ہم نے یہ کیا کہ ایک بچہ چند آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ایک بچہ ترجمہ پڑھتا ہے اور میں ساتھ ساتھ ایکسپلین کرتی اور سوال پوچھتی جاتی ہوں لیکن اُنہیں موقع دیتی ہوں کہ وہ بھی سوال کریں چاہے وہ کتنے ہی بچکانہ سوال ہوں۔

انسان کی ظاہری خوبصورتی اہم ہے یا اُس کا کردار؟
ہم کسی لڑکے یا لڑکی کو دیکھ کر کس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟
کیا کسی مخالف جنس کے ساتھ جو محرم نہ ہو اکیلے میں وقت گزارنا چاہیے؟
کیا ہم کسی سے اُس کے جسمانی خدوخال کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں؟
ایک لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کی کیا چیزیں متاثر کرتی ہیں؟
کوئی برا کام کرنے سے کیا چیز ہمیں روک سکتی ہے؟
کوئی برائی پر اُکسائے جب کہ ہم اکیلے ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
کیا شیطان اچھے انسان کو بھی گمراہ کرسکتا ہے؟
اگر ہم خوبصورت ہوں شکل سے یا قد کاٹھ سے یا صلاحیت سے ممتاز ہوں تو ہمیں اس کا فائدہ اٹھا کر غلط راستے کو اپنانا چاہیے یا خود کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلانا چاہیے؟
کسی غلط جگہ پھنس جائیں یا کوئی ہمیں بہت پریشر ڈال کے غلط کام بتاۓ تو ہم کیا کریں؟
کیا کسی کے غلط الزام لگانے پر ہمیں چپ رہنا چاہیے اپنی صفائی میں کچھ نہ بولنا چاہیے؟
عورت اور مرد کا جائز تعلق کس صورت ہے؟

اسی طرح حضرت یعقوب علیہ اسلام جب حضرت یوسف علیہ اسلام کو خبردار کرتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو نہ بتانا خواب کے بارے میں تو یہ سمجھانا آسان لگا کہ جیلیسی فطری جزبہ ہے اور والدین عموماً اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوۓ اُنہیں ایک دوسرے لے ساتھ معاملات کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں اسی طرح یہ بھی کہ چھوٹی موٹی لڑائی اور آرگیومینٹ ٹھیک ہے لیکن کسی کی دشمنی میں ہمیں اس حد تک نہ لے جاۓ کہ ہم دوسرے کو شدید نقصان پہنچائیں اور پھر جب ہم جھوٹ بولتے ہیں تو ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے دوسرا جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور یوں ہم مزید مشکل میں پڑتے ہیں اور سچ اور حق کو اللہ تعالی کبھی نہ کبھی سامنے لے آتے ہین جب انسان کا شرمندگی ہوتی ہے۔

پھر یہ بھی ڈسکس ہوا بچوں سے کہ دنیا میں بعض دفعہ بہت قریبی اور ٹرسٹ والے لوگ بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں لیکن ہم یہ سوچ کر مایوس نہیں ہوسکتے اور ہر ایک پر شک نہیں کرسکتے بلکہ ہماری زندگی میں ہر چیز ایک وجہ اور مقصد سے ہوتی ہے تو کوئی فرد ہم سے اگر برا کرے گا بھی تو ہوسکتا ہے اسی برائی میں ہمارے لیے اچھائی ہو اور اُس کے زریعے اللہ کریم نے ہمارے لیے کوی بہتری رکھی ہو۔

Share on:

Leave a Comment