اللہ تعالی کیساتھ تجارت
حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں ایک آدمی تھا ۔ وہ بے چارہ بہت ہی غریب تھا ۔ وہ نان شبینہ کو ترستا تھا ۔ ایک دفعہ ان کی حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ کہنے لگا ، حضرت! آپ کلیم اللہ ہیں اور کوہ طور پر جا رہے ہیں ۔ آپ میری طرف سے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ فریاد پیش کر دینا کہ میری آنے والی زندگی کا سارا رزق ایک ہی دم دے دیں تاکہ میں چند دن تو اچھی طرح کھا پی کر جاؤں ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس کی فریاد اللہ رب العزت کی خدمت میں پیش کر دی ۔ پروردگار نے اس کی فریاد قبول فرمائی اور اسے چند بکریاں ، گندم کی چند بوریاں اور جو چیزیں اس کے مقدر میں تھیں ، وہ سب عطا فرما دیں ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ اپنے کام میں لگ گئے ۔
ایک سال کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کو خیال آیا کہ میں اس بندے کا پتہ تو کروں کہ اس کا کیا بنا ؟ جب اس کے گھر پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ اس نے عالیشان مکان بنایا ہوا ہے ۔ اس کے دوست آئے ہوئے ہیں ۔ ان کے لئے دستر خوان لگے ہوئے ہیں ۔ ان پر قسم قسم کے کھانے لگے ہوئے ہیں اور سب لوگ کھا پی کر مزے اڑا رہے ہیں ۔ حضرت موسیٰ ؑ یہ سارا منظر دیکھ کر بڑے حیران ہوئے۔ جب کچھ دنوں کے بعد کوہ طور پر حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی ہوئی تو عرض کیا ،
اے پروردگار عالم ! آپ نے اسے جو ساری زندگی کا رزق عطا فرمایا تھا، وہ تو تھوڑا سا تھا اور اب تو اس کے پاس کئی گنا زیادہ نعمتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔ اے میرے پیارے موسیٰ ؑ ! اگر وہ رزق اپنی ذات پر استعمال کرتا تو اس کا رزق تو وہی تھا جو ہم نے اس کو دے دیا تھا ، لیکن اس نے ہمارے ساتھ نفع کی تجارت کی ۔
حضرت موسیٰ نے عرض کیا، اے اللہ ! اس نے کون سی تجارت کی ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس نے مہمانوں کو کھانا کھلانا شروع کر دیا اور میرے راستہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا ۔ میرا یہ دستور ہے کہ جو میرے راستہ میں ایک روپیہ خرچ کرتا ہے ، میں اسے کم از کم دس گنا زیادہ دیا کرتا ہوں چونکہ اس کو تجارت میں نفع زیادہ ہواہے ، اس لیے اس کے پاس مال و دولت بہت زیادہ ہے
سبحان اللّه