کوٸی تمہارے در پر آٸے تو اسے مایوس نہ لوٹاٶ

حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ زمانے کے ظلم کا شکار ایک درویش کسی مغرور رئیس کے دروازے پر چلا گیا اور اس مغرور رئیس نے جو انتہائی درجے کا کنجوس بھی تھا اس نے درویش کی مدد کرنے کی بجائے اسے جھڑکنا شروع کر دیا۔ وہ درویش اس مغرور رئیس کے گھر کے باہر کھڑا ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس مغرور رٸیس کا پڑوسی جو کہ نابینا تھا، اس نے جب سسکیوں کی آواز سنی تو باہر آ کر پوچھا کہ تو کون ہے جو یوں رو رہا ہے؟ درویش نے اس نابینا کو اس کے مغرور ہمسائے کی شکایت کی۔ وہ نابینا شخص درویش کو اپنے گھر لے گیا اور اپنا مہمان بنا لیا۔

اور اس درویش کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔ درویش نابینا شخص کے عمدہ اخلاق سے بے حد متاثر ہوا اور اس کے حق میں دعائے خیر کے بعد وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس نابینا نے درویش کے ساتھ یہ سلوک کسی لالچ کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ وہ نیک تھا اور اس کے لیے کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔
اللہ عزوجل کو اس نیک شخص کی نیکی پسند آئی اور درویش کی دعا اس کے حق میں قبول ہوئی۔ اس نابینا شخص کی بینائی لوٹ آئی اور آنکھوں سے چند قطرے پانی گرنے کے بعد آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی۔ لوگوں کو جب اس درویش کی کرامت کا علم ہوا تو سب اس نیک شخص کے پاس آ کر اس درویش کی زندہ کرامت دیکھنے لگے اس مغرور رئیس نے بھی اس شخص سے بنائی لوٹنے کا سبب دریافت کیا تو وہ بولا کہ مغرور!تو کم نظر ہے اور تیرا بخت نیک نہیں تھا اس لئے تو نے اس درویش کو رسوا کرکے اپنے در سے لوٹا دیا اور میرے بخت کا دروازہ اس وقت کھلا جب تو نے اپنا دروازہ بند کیا۔

اگر تو درویشوں کی خاک چومے گا تو تجھے نور ملے گا۔ وہ لوگ جو قلب کے اندھے ہیں وہ یقیناً اس نور کو نہیں پہچان سکتے۔ وہ مغرور رٸیس افسوس کرنے لگا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہنے لگا کہ یہ شہباز میرا تھا جو اس نابینا کے جال میں پھنس گیا۔ یہ نعمت میرے لئے تھی جو اسے مل گئی۔ وہ شخص بولا کہ تجھے یہ شہباز کس طرح مل سکتا تھا کہ حریص چوہے کی مانند دانت گاڑے ہوئے ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ کہ بس بس یاد رکھو کہ بھلائی کے کام جلد از جلد کرو اور اگر کوئی تمہارے در پر آئے تو اسے مایوس نہ لوٹاٶ۔

Share on:

Leave a Comment