وہ دلوں کا حکمراں وہ فاتحِ زمانہ

وہ دلوں کا حکمراں وہ فاتحِ زمانہ

ایک حجام رسول الله علیہ وسلم کے بال بنا رہا تھا. صحابہؓ کا ایک ہالہ ان کے گرد موجود تھا, کچھ اس طرح کہ ان کی آرزو تھی جو بال بھی گرے, ان کے ہاتھ پہ ہی گرے! (1)

جن کے چاہنے والے برتن میں عین اسی جگہ ہاتھ ڈالتے ہوں, جہاں ان کا ہاتھ لگا تھا.
جن پہ جان و دل وارنے والے ان کے بدن پہ پڑنے والی ایک ایک شکن پہ نم دیدہ ہوجاتے ہوں.
جن کے فراق میں درختوں کے تنے بھی زار زار بلکتے ہوں.

اتنی محبتیں کسی کے قدموں کی دھول ہوں. اتنی تتلیاں جو گردِ پھول ہوں. تو دل میں کچھ نہ کچھ تو احساس آ ہی جاتا ہے نا! ذرا سے تفاخر کا!

کچھ غلط بھی نہیں ہے یہ آجانا. بھلا کتنے زیادہ لوگ اتارے ہیں ربِ کائنات نے آج تک دنیا میں؟ ان میں اپنے محبوب ترین بندے، انبیا کتنوں کو بنایا ہے؟ اور سلسلۂ ذھب کا آخری گہرِ نایاب۔۔۔۔وہ تو ایک ہی تھا نا۔
وہ تو وہی تھے نا۔
امام الانبیاء!
پوری کائنات میں چُنے ہوئے
کائنات کی تخلیق سے لے کر آج تک نہ کوئی ان سا آیا نہ قیامت تک آئے گا۔

وہ اس دن بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہ جس کی ذات پہ کونین کے ذرے ناز کرتے تھے۔
نبیوں کے سردار!
اور ان کے ساتھ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔
فرشتوں کے سردار
جبرائیلِ امینؑ!
ذرا سا تفاخر تو آجانا چاہیے ہی تھا نا۔
جبرائیل نے آسمان کی طرف دیکھا تو ایک فرشتہ اتر رہا تھا۔ وہ بتانے لگے: جس روز سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس وقت سے آج تک یہ فرشتہ زمین پر نہیں آیا۔
فرشتہ نیچے اتر رہا تھا۔ وہ آیا اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا:
“اے محمد صل اللہ علیہ وسلم! مجھے اللہ نے آپکی جانب یہ پیغام دے کے بھیجا ہے کہ اللہ آپ کو بادشاہ نبی بنا دے یا بندہ نبی بنا دے؟”
اللہ اللہ
اب تو انہیں حق تھا کہ عالمی اور ابدی بادشاہی حاصل کرتے۔ دلوں کے حکمراں تو تھے ہی، شاہِ زمانہ بن کر قیامت تک کے لیے اپنی تاجداری کا سکہ بٹھا جاتے۔ امام الانبیاء کو بادشاہ نبی ہی ہونا چاہیے!
ساتھ بیٹھے جبرائیلؑ نے مشورہ دیا: اے محمد صل اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے سامنے عاجزی اختیار کیجیے۔
اور رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فوراً کہا: میں اللہ کا بندہ رسول بننا چاہتا ہوں۔ (۲)

اسی لیے ہم آج بھی گواہی دیتے ہیں،. اشھد ان لاالہ الا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ

کوئی اور ہوتا تو کیا کچھ نہ مانگتا۔ مگر انہوں نے مانگا تو کیا۔ عاجزی اور بندگی۔
حکمرانِ زمانہ_کہ جس کا تاج تھا نہ تخت تھا۔
وہ حاکم کہ جس کا مزاج ذرا بھی نہ سخت تھا۔

خود سوچیں۔
آپ کو کسی بادشاہ سے ملنا ہو۔ تو دل رعب سے کیسے دبا جائے گا؟
اس شخص کو تو سردارِ دوعالم سے ملنا تھا۔ اس کے کندھے تک کانپنے لگے۔
حڪمرانِ مدینہ نے شفیق لہجے میں کہا، ڈرو نہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں۔ میں تو ایسی (عام غریب) عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔ (۳)
ایک دیہاتی کو انہوں نے اپنا تعارف یوں کروایا:
“اللہ نے مجھے نرم دل بندہ بنایا ہے۔ مجھے سخت اور جبار نہیں بنایا۔” (۴)

یوں ہی تو نہیں بن گئے تھے وہ فاتحِ قلوب۔ اس دن انہیں عین بازار میں ایک عورت نے روکا تھا جس کا ذہنی توازن بھی درست نہ تھا۔ وہ اسے نرم لہجے میں کہنے لگے: اے امِ فلاں! جہاں لےجانا ہے، لے چلو۔ میں تمہاری دادرسی کروں گا۔
اور وہ خاتون حاکمِ وقت کو لے کر بازار میں جانے کہاں کہاں چلتی رہی اور وہ اس کے ساتھ چلتے رہے۔ پھر ایک جگہ بیٹھ گئی، وہ بھی بیٹھ گئے۔ اس کا مسئلہ حل کیا اور چلے آئے۔ (۵)

اور ہم کیا کرتے اس ذہنی توازن بگڑی عورت کے ساتھ؟
کبھی سوچتے کہ وہ بھی کسی کی ماں ہوسکتی ہے؟
کون سا حاکم ہے دنیا کا جو اپنی رعایا میں ذہنی معذور لوگوں کے بچوں کے نام تک یاد رکھتا ہے اور انہیں ان کی کنیت سے پکارتا ہے؟

کون سا حاڪم ہے جو نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں رک جاتا ہے کہ ایک نوعمر لڑکے سے بکری ذبح کرنے کے بعد کھال نہیں اتر رہی تھی۔ وہ خود اسے کھال اتار کر اتارنا سکھاتا ہے۔

کون سا حکمران ہے جو کہتا ہے: “میں ہر مومن سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اس لیے جو شخص اب قرض چھوڑ کر فوت ہو، اس کا قرض چکانا میرے ذمہ ہے۔” (۶)

وہ حڪمرانِ قلوب __کہ جن کی ذات فخرِ آدمیت ہے۔ جنہوں نے انسانوں کو ہر انسان کی غلامی سے آزاد کر کے اللہ کی غلامی میں دے دیا۔
وہ امامِ دوراں کہ جنہوں نے نہ صرف خود کو بادشاہ اور شہنشاہ کہلوانا ناپسند کیا بلکہ فرما دیا: “اللہ کے ہاں سب سے ذلیل اور حقیر وہ شخص ہے جو خود کو شہنشاہ کہلواتا ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی شہنشاہ نہیں ہے۔” (۷)

جنہوں نے خود بھی بندگی کو چنا اور قیامت تک کے لیے ہر شہنشاہ، ولی، پیر کے سر پہ سجے تفاخر کے تاج اپنے پاؤں کی ٹھوکر میں اچھال دیے۔ جنہوں نے امت کو اپنی تو کیا کسی کی بھی قبر پہ جھکنے سے بچا لیا۔ جنہوں نے قبروں کو سجدوں کے دربار بنانے والوں پہ خود لعنت کی۔ جنہوں نے اپنی سچی زبان سے یہ کہا: “تم میں سے کوئی آگ کے انگارے پہ بیٹھ جائے، وہ انگارا اس کے کپڑوں کو جلا دے اور پھر اسکی جلد کو جالگے۔ یہ تکلیف اس حرکت سے کہیں بہتر ہے کوئی شخص قبر (کا مجاور بن کر اس) پہ بیٹھ جائے۔” (۸)

کہاں ملے گا زمانے کو کوئی ان سا_
توحید کا داعی
عاجزی کا پیکر
دل نواز ان سا
چارہ ساز ان سا
ثانی تو بڑی بات ہے سایہ نہ ملے گا!!!

بحوالہ:
(۱) صحیح مسلم: کتاب الفضائل، راوی انسؓ
(۲) مسندِ احمد، ابنِ حبان، البانی نے صحیح کہا ہے
(۳) ابنِ ماجہ: ابواب الاطعمہ
(۴) ابنِ ماجہ: ابواب الاطعمہ
(۵) ابوداؤد: کتاب الادب، مسلم: کتاب الفضائل
(۶) ابوداؤد: کتاب البیوع
(۷) صحیح بخاری، مسلم: کتاب الادب
(۸) صحیح مسلم: کتاب الجنائز

Share on:

Leave a Comment