صدقہ کرنا
وہ علاقے کا اکیلا دھوبی تھا لیکن انتہائی بد اخلاق بدتمیز اور چور تھا. لوگوں کے کپڑوں میں سے ساماں نکال کر واپس نہ کرتا بیچ کر کھا پی جاتا. لوگوں کے کپڑے رد و بدل کر دیتا. غیبتیں کرتا. غرض علاقے والے اس سے بڑا تنگ تھے
علاقے کے امراء نے فیصلہ کیا کہ اس کی شکایت اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے لگائی جائے تاکہ اس خبیث سے چھٹکارا حاصل ہو. چناچہ ایک دن جب دھوبی سب کے کپڑے لیکر اپنے دھوبی گھاٹ چلا گیا تو سب مل کر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس آئے اور بدعا کا بولا. حضرت عیسٰی نے درخواست قبول کی اور اللہ تعالی سے دعا کی. اے اللہ اس خائن کو وہیں غارت کر دے. اب دھوبی کپڑے دھو رہا تھا کہ ایک فقیر کا ادھر سے گزر ہوا اس نے اللہ کے نام پر کچھ مانگا تو دھوبی نے اسے دو روٹیاں دے دیں، فقیر روٹیاں لے کر دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ وہاں سے دھوبی نے آرام سے کپڑے دھوئے اور کپڑوں کا گھٹا سا بنا کر واپس شہر آ گیا
لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا اور دوڑے چلے آئے حضرت عیسٰی علیہ اسلام کے پاس آپ نے دعا کی تھی وہ پوری کیوں نہیں ہوئی. دھوبی صحیح سلامت پھر رہا ہے
عیسٰی علیہ اسلام نے دھوبی کو بلایا اور پوچھا کہ تو نے آج ایسا کون سا نیک عمل کیا ہے؟
دھوبی بولا کچھ بھی نہیں بس ایک فقیر کو راہِ خدا میں روٹیاں دی تھیں، اس نے دعا دی اور چلا گیا
اتنے میں عیسٰی علیہ اسلام کو وحی نازل ہوئی اور ارشاد باری تعالٰی ہوا کہ اے نبی اس دھوبی کی گھٹری کھلوا کے دیکھ حضرت عیسٰی علیہ اسلام نے دھوبی سے گھٹری کھولنے کا بولا اس نے جب کپڑوں سے بھری گھٹری کھولی تو ایک بہت بڑا کالا ناگ اس میں سے نکلا جسکا منہ سلا ہوا تھا
حضرت عیسٰی علیہ اسلام نے ناگ سے پوچھا اے ناگ تجھے جب اس دھوبی کو مارنے کے لئے بھیجا اللہ نے تو تو نے کیوں نہیں اس کو مارا.؟
ناگ نے عرض کی کہ اے نبی خدا ! جب میں اسے ڈسنے کے لئے آگے بڑھا تو اس انسان نے دو روٹیاں صدقہ دے دیں اسی وقت فرشتے آئے اور میرا منہ سی دیا.تاکہ اس کو میں ڈس نہ سکوں
یہ سن کر حضرت عیسٰی علیہ اسلام نے دھوبی سے فرمایا اے اللہ کہ بندے ! خدا نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیئے اس صدقہ کے بدلے، لہذا اب صدقہ جاری رکھنا اور گناہوں سے بچنا