ایک وقت تھا کہ جب عیسائیوں کو عروج حاصل تھا اور تقریباً پورا یورپ اُس وقت عیسائی تھا، یہ وہ وقت تھا کہ جب کلیساء کا لوگوں کے زاتی اور اجتماعی، تمام پہلوؤں پر اختیار حاصل ہوگیا تھا اور کلیسا کی طاقت اُس دوران موجودہ شہنشاہ یا بادشاہ سے بھی زیادہ تھی، بادشاہ کی حیثیت ایک مُہرے جیسی تھی باقی سارا کنٹرول کلیسا اور عیسائی پوپ یا پادریوں کا ہوا کرتا تھا۔
کلیساء اور پاپس نے دینِ مسیحیت کے نام پر لوگوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا، کلیساء اور چرچ کے مطابق عقل، سائنس اور سائینسی تحقیقات کی خاص کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی تخلیقی اور عقلی کاموں کو سراہا جاتا تھا اور مزید یہ کہ عقلانی تحقیقات اور انکشافات پر پابندی بھی لگا دی گئی تھی۔
جیسے اُس وقت “گلیلیو” ایک مشہور سائنسدان کو بھی انھوں نے مکمل دبانے کی کوشش کی، مطلب کلیساء کی لوگوں کے زندگیوں کے ہر معاملے میں دَخل تھا، چاہے لوگوں کی انفرادی زندگی ہو، اجتماعی یا خاندانی ہو۔ زندگی کے ہر شعبے میں کلیساء مداخلت کرتا تھا اور بہت عجیب و غریب تعلیمات کا پرچار کرتا تھا کہ جو انسانی فطرت کے بھی خلاف ہو، ہر وہ چیز جس میں انسان کی لزت شامل ہو، کلیساء اُسے برا سمجھ کر منع کرتے تھے مثلاََ شادی کو اتنی اہمیت نہ دینا کہ اُن سے سے روح گندا ہوتا ہے یا مثلاََ زندگی کے ہر شعبے کو چھوڑ کر اور ایک جگہ پر بیٹھ کر عبادت کرنے چاہیئے، جسکو “رہبانیت” کہا جاتا ہے۔
دینِ مسیحیت میں تحریفات (ردوبدل) کرکے اُس وقت کا کلیساء اور پاپس مکمل انسانی فطرت کے تقاضوں کے خلاف ہوا، تو ایسے گھٹن حالات پائے جاتے تھے، لوگون کا جینا حرام ہوا تھا اور یہی تمام حالات اور حوادث سیکولرازم کے اسباب بھی بنے۔
نتائج اور اثرات؛ انقلابِ فرانس اور سیکولرازم کا قیام
تو ایسے میں سولہویں صدی میں کلیساء کی خلاف ایک تحریک شروع ہو جاتی ہے اور اس تحریک کے رہنمائی “مارٹن لوتھر” کرتے ہیں، انہوں نے کلیساء کے خلاف احتجاج کیا یعنی چرچ کے خلاف “پروٹیسٹ” کیا اسی وجہ سے پھر اِن کا نام بھی “پروٹیسٹنٹس” (یعنی احتجاج کرنے ) والا گروہ بن گیا چونکہ کلیساء یہ سارا کام تقدُس اور دینِ مسیحیت کے نام پر کرتا تھا تو لوگوں نے کہا اب ہمیں کوئی تقدس نہیں چاہیئے، اب ہمیں دین سے ہی نجات دو، ہمیں کوئی دین وغیرہ نہیں چاہیئے۔
پروٹیسٹنٹس کے خلاف، چرچ اور اس کے باشندے مخالفت میں سامنے آئے اور اِن دونوں کے درمیان 1522 کے اندر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور یہ لڑائی تقریباً 1700 تک چلتی ہے یعنی تقریباً پوری یورپ میں تقریباً 178 سال تک “پروٹیسٹنٹس” اور “چرچ” کا ایک دوسرے کے خلاف شدید لڑئی ہو جاتی ہیں، اس وقت یورپ کے ہر ریاست میں یہ لڑائی چلتی رہی آخر کار 1648 میں ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کو “ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا” کہا جاتا ہے۔
ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا
اِس معاہدے میں سب سے بڑے فیصلے جو لیئے گئے وہ یہ تھے کہ سب سے پہلے ہم ایک دوسرے کے ریاستوں کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور دوسرا فیصلہ یہ ہوا کہ آج کے بعد عیسائیت میں صرف وہ متشدد اور بنیاد پرستی والا نظریہ نہیں ہوگا بلکہ اس میں مختلف نظریات یا مزاہب ہونگے جیسے “لوترانِزم” وغیرہ اور اِس بات پر بہت زور دیا گیا کہ ہم کھبی بھی مزہب کے بنیاد پر لڑائی نہیں کریں گے، یہ معاہدہ 1648ء میں ہوا مگر اِس کے باوجود کچھ جنگ پھر بھی چلتی رہی اور آخر کار 1700ء میں جا کر جنگ کا مکمل اختتام ہوا اور اَمن کا ماحول پیدا ہوا۔
اِنلائٹمنٹ کا دور
جب یورپ کے مختلف ریاستوں نے واقعاً یہ قبول کر لیا کہ ہم ایک دوسرے کے مُلکی اور اندرونی معاملات میں کوئی دخل نہیں دیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ مزہب یا دین کے بنیاد پر نہیں لڑیں گے، اس کے بعد پوری پورپ میں تاریخ دانوں کے مطابق 1715ء میں روشن خیالی کا دور شروع ہو جاتا ہے جسکو “اِنلائٹمنٹ” کہا جاتا ہے۔
یہ دوَر تقریباً 1789ء تک چلا، کچھ تاریخ دانوں کے مطابق “اِنلائٹمنٹ” 1815ء تک رہی اور اِس “اِنلائٹمنٹ” کے نتیجے میں ہی یورپ میں بڑے مفکرین اور فلاسفرز سامنے آئے، جیسے عمانویل کانٹ، لیبنز، جان لاک، مونٹیسکوئیو، روسو، ایڈم اسمتھ، ہیوگو گروٹیئس، اسپینوزا، اور والٹیئر وغیرہ، جنکا یورپ کے نظام پر پہت اثر ہیں، یہی وہ دور تھا جہاں سے یورپ کی ترقی شروع ہوئی، سائنس سے لیکر آرٹ تک، پوری یورپ میں انقلاب برپا ہوگیا۔
اس کے بعد سیکولرازم کا اثر پوری دنیا پر ہوا، بِشمول اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے علاقوں میں بھی سیکولرازم کا اثر و رسوخ پھیل گیا، آج بھی کئی اِسلامی ممالک بالواسطہ یا بلا واسطہ سیکولر اسٹیٹس ہی ہیں۔
سیکولرازم کے دو شکلیں
سیکولرازم کی دو خاص شکلیں یا اقسام کے بارے میں عرض کروں گا۔
عملی سیکولرازم
عملی سیکولرازم یہ ہے کہ اگرچہ رسماً اور قانونی طور سٹیٹ یا حکومت کا لوگوں کے کسی بھی مزہبی امور میں دخل نہیں ہوگا لیکن لوگوں کے عملی زندگیوں میں مزہب کا اتنا کوئی خاص کردار بھی نہیں ہوتا، جیسے اگر ہم حجاب کی مثال لیں تو پاکستان میں کلّی طور پر ہر عورت آزاد ہے وہ پہن بھی سکتی ہے اور نہیں بھی پہن سکتی، حکومت کی طرف سے قانونی طور پر اُن پر کوئی پابندی نہیں ہوتی حالانکہ اسلام میں حجاب پہننا واجب اور فرض ہے۔
قانونی سیکولرازم
قانونی سیکولرازم یعنی حکومت اور اسٹیٹ انسان کے مزہبی اُمور میں بھی دخل دے سکتا ہے جیسے مثلاََ کئی ممالک میں بِشمول فرانس میں حجاب پہننا منع ہے، مطلب یہ قانونی اَمر ہے کہ آپ حجاب نہیں پہن سکتے، یاد رہے یہ دو سیکولرازم کے اصطلاحات صرف حجاب تک محدود نہیں ہیں، میں نے صرف ایک مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔