اب تمہیں کیا بتاؤں زوال کی کیا بتاؤں
جب بنواُمیَّہ کو زوال آیا تو بنوعباس غالب آگئے تو ابراہیم سلیمان بن عبدالملک کا بیٹا بھاگا، یہ ایک جگہ حکمران تھا وہاں سے بھاگتے بھاگے کوفہ پہنچا، ایک نوجوان کو دیکھا بیس پچیس مسلح سوار اس کے دائیں بائیں، کہنے لگا بیٹا! میں ڈرا ہوا ہوں کچھ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں مجھے پناہ مل سکتی ہے؟ کہا ہاں چچا! مل سکتی ہے آپ تشریف لائیں…اس کو لے گیا اپنے محل
میں نوکروں کے سپرد کیا اور کہا ان کا خیال رکھا جائے
ایک ہفتہ گزر گیا وہ نوجوان روزانہ ہتھیار سجائے اپنے مسلح دستے کو لے کر پھرتا پھرتا شام کو لوٹ کر آتا، یہ کہنے لگے میں اسکی خدمت و اخلاق سے بہت متاثر تھا، میں نے کہا بیٹا! یہ کیا بات ہے صبح نکالتا ہے شام کو آتا ہے؟وہ کہنے لگے چچا! مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ کا قاتل کوفہ۔میں چھپا ہوا ہے، اس کی تلاش میں نکلتا ہوں مل نہیں رہا، کہا کون ہے تیرے باپ کا قاتل؟ کہا ابراہیم بن سلیمان بن عبدالملک… یہی یہی جس کو پناہ دی ہوئی تھی، کہا وہ ابراہیم سلیمان کا بیٹا، اس نے میرے باپ کو قتل کیا تھا اپنے راج میں، میں اس لئے نکلتا ہوں کہ کہیں ملے تو قتل کرکے اپنا بدلہ چکاؤں…کہنے لگے میں اس بچے کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ میں اپنے آپ کو چھپا نہ سکا، میرے ضمیر نے گوارہ نہیں کیا، میں نے کہا بیٹا! تیری مشقت ختم ہوگئی…تیرا سفر ختم ہوگیا…تیرا کام بن گیا ہے
…میں ابراہیم بن سلیمان تیرے سامنے ہوں، اپنے باپ کا بدلہ لے لے…تو اسکے لبوں پر ایک بڑی غمگین مسکراہٹ بکھر گئی…کہنے لگا چچا! لگتا ہے تنہائی میں رہتے رہتے دل گھبرا گیا ہے خودکشی کرنا چاہتے ہو؟
کہا نہیں بیٹے! اللّٰہ کی قسم میں ہی ابراہیم بن سلیمان ہوں اور میں نے ہی تیرے باپ کو قتل کیا تھا، یہ گردن حاضر ہے…
تو عرب، عصبیت اور انتقام اس کے بغیر تو عرب کا تصور نہ تھا…وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور ایک دم کھڑا ہوا…تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور جنگ شروع ہوگئی…ادھر ایمان ہے ادھر انتقام ہے
انتقام کا جذبہ کہتا ہے ماردو، مگر ایمان کہتا ہے بول دے چکے ہو امن کا، ہاتھ نہ اُٹھاؤ تو ایسے کانپنا شروع کردیا، لرزتا رہا، لرزتا رہا آخر ایمان نے فتح پائی…انتقام کی آگ بجھی اور وہ بیٹھ گیا…کہنے لگا چچا! عنقریب تو اور میرا باپ بڑے بادشاہ کے سامنے احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہونے والے ہو، وہاں میرا باپ تجھ سے خود ہی اپنا بدلہ لےلےگا، میں تجھے امن دے چکا ہوں، میری تلوار تجھ پر نہیں اُٹھ سکتی
تم دیکھتے نہیں ہو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کیسے قتل ہورہے ہیں اور کس طرح آگ بھڑکی ہوئی ہے…(صفحہ 87،88)