اولاد کو اللہ کا فرمانبردار بنانے کی کوشش کیسے کی جائے؟
بحثیت والدین سب سے اہم چیز اپنی نیت کی اصلاح کرنا ہے، کسی کے لئے برا نہ سوچا جائے، دوسروں کے لئے اپنے دل کو صاف رکھا جائے، والدین کی نیت اولاد پر بہت اثر رکھتی ہے۔
خیر بانٹنے، دوسروں کی خیر چاہنے سے خیر ہی پلٹ کر آتی ہے، کسی سے کیسا شکوہ یا تکلیف والا معاملہ ہو، اللہ کی رضا کے لئے، اللہ سے اس سخت دن کی معافی کی امید میں لوگوں کو سچے دل سے معاف کر دیا جائے، دوسروں کی کامیابیوں پر دل سے خوش ہوا جائے، دوسروں کے مسائل پر دل سے دعا کی جائے۔
دوسری اہم چیز اپنے والدین کے حقوق ادا کئے جائیں، ان کے ساتھ بھلائی والا معاملہ کیا جائے، ان کی دعائیں سمیٹے جائیں، یہ بہت اہم نکتہ ہے اور پھر یہ کہ خود اللہ کی ہر طرح کی نافرمانی سے بچا جائے، جیسا ہم اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے ہیں، ویسا ہی خود بنتے جائیں، نہ دھوکہ دیں، نہ جھوٹ بولیں، نہ امانت میں خیانت کریں اور خود اللہ کے حقوق اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی پابندی کریں، آدھی تربیت یہی ہے۔
پھر یہ کہ ان کے ساتھ روز ایک حلقہ لگایا جائے، جس میں ان کی تربیت کی جائے، سارا دن دنیا دیکھ کر اور دنیا سن سن کر جو دنیا کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اس گرد کو بہت محبت اور پیار سے صاف کر کے آخرت کی فکر اللہ کی محبت دلوں میں ڈالنے کی محنت کی جائے جیسے حدیث پڑھنا، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سنانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات زندگی سنانا، اچھی مثالیں، اچھی باتیں، تذکرے اہم ترین ہیں، یہ تذکرے ہی ہیں جو فکر مرتب کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
ہم دن بھر جو بولیں گے، وہی ہماری فکر کا محور بن جائے گا، کبھی زبردستی کچھ نہ کروایا جائے صرف بتانا ہے سمجھانا ہے اور ان کو اختیار دینا ہے، زبردستی کروائے گئے کام دیر پا نہیں ہوتے مستقل فکر جگانی ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، اللہ کے ساتھ ہونے کا یقین ان کے دلوں میں بٹھانا ہے، یہ سٹنگ روزانہ کی بنیاد پر ہو کوئی ناغہ کئے بغیر، سالہا سال کرنے سے خود بخود نتیجہ سامنے آنے لگے گا، ان شاء اللہ۔
نماز کی خود پابندی کرنی ہے تو خود بخود بچے بھی کریں گے، ان کو چھوٹی عمر سے نماز کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے، نماز کو زندگی کا سب سے اہم کام سمجھنا اور سمجھانا ہے کہ اس سے اہم کوئی اور کام نہیں، جہاں بھی ہوں جیسا بھی موقع ہو، شادی بیاہ، سیر و تفریح، مشکل آسانی ہر حالت میں خود بھی نماز ہڑھنی ہے اور بچوں سے محبت کے ساتھ پابندی کروانی ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر قرآن کی تلاوت کا معمول بنانا ہے اور جیسا کہ آج کل کے حالات ہیں، ہم نے انھیں میڈیا کے حوالے نہیں کر دینا کہ بچے کی تربیت کرے، خود وقت دینا یے ، میڈیا کا درست استعمال سمجھانا یے ، گناہ سے نفرت کو اس کے دل میں بٹھانا یے ، تنہائی کے گناہ سے بچنے کی ترغیب، اس کے نقصان۔
نگاہ کی حفاظت اور سب سے اہم بڑھتی عمر میں ان کی جسمانی تربیت، جسمانی تبدیلیوں سے آگاہی اور جائز، نا جائز، محرم ، نا محرم کا تصور، خود ایسی فیملیز سے تعلقات بڑھانا جن سے مل کر ہمارے ایمان تازہ ہوں اور جو ہماری آخرت بنانے میں مددگار ہوں، صحبت بہت اہم چیز یے، دین میں مددگار لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے اور بچوں کو ہفتہ میں کم از کم ایک بار دینی مجالس میں اپنے ساتھ لے کر جانا، شائد دیکھنے میں یہ کام بہت زیادہ لگ رہے ہوں یا مشکل لگ رہے ہوں لیکن حقیقتاً یہ دنیا کے باقی امور کا 20 فیصد حصہ ہیں۔
بچے گرینڈ پیرینٹس کی خدمت کرنے والے، ان سے بہت محبت کرنے والے اور دعا لینے والے ہوں، ماں ہمیشہ بچوں کے دل میں ددھیال کی محبت ہی ڈالے، کسی سے کیسا بھی شکوہ ہو، کبھی بچے کے کان میں نہ جائے، اسے رشتے نبھانے کی ٹریننگ دینی ہے، ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ کچھ دینی گھرانوں میں دیکھا گیا کہ والدین زبردستی بچوں کو دین پر عمل کرواتے رہے، زبردستی ٹی وی بند، زبردستی گانے نہ سننا، زبردستی کا پردہ اور نماز، روزہ اور جونہی بچے ذرا بڑے ہوئے، والدین کے اثر سے باہر نکلے تو سپرنگ کی طرح انھوں نے اس آزادی کو خوب منایا یا کبھی والدین موجود نہ ہوئے تو ان پابندیوں کو بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا، یہ بہت اہم بات ہے کہ زبردستی کچھ نہ کروایا جائے، یہ لانگ ٹرم پروسیجر ہے، صبر آزما بھی لیکن ان کو صرف رستہ دکھانا ہے اچھائی اور برائی کا، اللہ کی رضا اور فرمانبرداری کا، خود چل کر دکھانا ہے اور اختیار ان کے ہاتھ میں دے دینا ہے، سالوں کی محنت ضرور رنگ لائے گی اور ہر اہم بات سے بھی اہم بات دعا، دعا اور صرف دعا۔
والدین صرف کوشش اور دعا کرسکتے ہیں ہدایت اللہ دیتے ہیں، تربیت اللہ فرماتے ہیں، ہر نماز کے بعد خصوصی دعا، اذان اور اقامت کے درمیان دعا:
ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین واجعلنا للمتقین اماما
کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے، للہ ہمیں اور ہم سب کی اولاد کو اپنا محبوب بنا لیں، ان سے راضی ہو جائیں، ان سے عافیت و اخلاص کے ساتھ اپنے دین کی خدمت لیں، ہماری نسلوں کو دین کی محنت کے لئے قبول فرمائیں، انھیں ہمارے لیے لئے صدقہ جاریہ بنائیں اور انھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلائیں، آمین….