انداز تربیت

پہلی بار چھوٹے بیٹے کے کمرے سے سگریٹ کی مخصوص بو محسوس ہوئی تو وہم سمجھا۔ہفتہ بھر بعد یقین ہوگیا کہ چھوٹے صاحب جو نویں جماعت کے طالب علم ہیں،کسی ایڈونچر کے موڈ میں ہیں۔جب دو تین مہینے گزر گئے پھر بات کرنے کا سوچا۔صاحب بہادر سے بات کی تو بولے کہ میں تو خود سموکر ہوں تو کس منہ سے بات کروں،تم ہی بات کر لو۔بڑے بیٹے سے بات کرنے کا سوچا مگر خود ہی اپنا خیال رد کر دیا کہ اکثر بڑے بھائیوں کو چھوٹے بھائیوں کی کوئی کمزوری یا غلطی پتا لگ جائے تو وہ اصلاح کی بجائے انکو ذلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کام کروانے کے لیے بلیک میل بھی کرنے لگتے ہیں۔سو خود ہی ایک دن موقع اور اچھا موڈ دیکھ کر پاس بٹھا لیا۔
ایک بات ایمانداری سے بتانا کہ تم کب سے سموکنگ کر رہے ہو؟؟؟
کئی بار تمہید باندھنا اگلے بندے کو ہوشیار کر دیتا ہے،اس لیے ڈائریکٹ بات کی تاکہ چہرے کے تاثرات سے بھی سچ جھوٹ کا اندازہ لگ سکے۔۔ایکدم چہرے کا رنگ بدلا،میری طرف چور نظروں سے دیکھا،میں اسکی طرف دیکھ کر ہنسنے لگی،ڈر کیوں رہے ہو چوہدری صاحب۔۔سچ بولیں ورنہ پتا تو مجھے ہے۔مجھے خوشی ہوگی جب سچ بولو گے۔ماں باپ سے کچھ چھپا نہیں ہوتا۔تم پوچھو کہ جب اولاد کے بارے جب کسی غلط بات کا ماں باپ کو پتا چل جاتا ہے تو وہ چپ کر جاتے ہیں اور فورا باز پرس کیوں نہیں کرتے؟؟؟
بولا۔ کیوں؟؟؟؟
اس لیے نہیں بول پاتے کہ انہیں یقین ہی نہیں اتا کہ انکی اولاد انکی ایسا کر سکتی ہے۔تو وہ جتنا عرصہ چپ رہتے ہیں تو اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں،کہ ایسا نہیں ہوگا۔پھر جب یقین ہو جائے تو پھر وہ نہیں بول پاتے،۔۔۔
یقین کے بعد وہ بولنا چائیں تو انہیں تربیت میں کسی کمی،یا تربیت کے رائیگاں چلے جانے کا دکھ
بولنے نہیں دیتا۔۔۔
اور جب وہ ہمت مجتمع کر کے اولاد سے بات کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اکثر بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔۔
مگر بیٹا تمھارے معاملے مجھے امید ہے کہ سے دیر نہیں ہوئی۔۔۔
۔کیوں سگریٹ پینا شروع کیے؟؟
بس ایسے ہی شغل میلہ۔۔دوست پینے لگے تو انکا ساتھ دینے کے لیے”۔۔۔۔
تمھیں پتا ہے کہ میں ہمیشہ ایک بات تم لوگوں کو کہتی ہوں کہ اللہ پاک نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اشرف المخلوقات میں سے مردوں کو عورتوں پہ
ایک درجہ فضیلت دی ہے،عقل میں کامل کیا ہے..کیا یہ بات ٹھیک ہے؟؟؟؟؟۔
ہاں ایسا ہی ہے”۔۔۔۔”
تو بیٹا
کسی بھی چیز کی حد سے بڑھی چاہت،خواہش
انسان کو غلام بنا دیتی ہے،اور مرد غلامی کے لیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔تو میں کیسے پسند کر سکتی ہوں کہ میرا بیٹا ایک حقیر سی کاغذ کی بنی چیز کا غلام بن کر جئے۔کہ جس چیز کے نہ ملنے پہ اسے دوسروں کے سامنے گڑگڑانا پڑے۔کیا تمھاری مردانہ انا دوسروں کے اگے جھکنے سے مجروح نہیں ہوگی؟؟
وہ کچھ دیر سر جھکائے میری باتیں سنتا رہا،پھر سر اٹھا کر میری طرف کچھ سوچتی نظروں سے دیکھنے لگا۔مجھے اندازہ ہوگیا کہ تیر نشانے پہ لگ گیا ہے۔ویسے بھی کچی عمروں کی عادتیں بھی کچی سی ہوتی ہیں جیسے کچی مٹی کے برتن۔۔انہیں وقت کی بھٹی میں پکنے سے پہلے ہی توڑ دینے کی کوشش اکثر کامیاب ہو جاتی ہے۔۔
بیٹا کچھ تذبذب کا شکار معلوم ہوا،اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر سہلایا،کہ بعض اوقات الفاظ ناکافی ہوں تو لمس یہ کمی پوری کر دیا کرتا ہے۔ “جو دل میں بات ہے کھل کر کہو۔
پاپا بھی تو پیتے ہیں،،اس نے کچھ ہچکچاہٹ سے کہا۔مجھے اس بات کا یقین تھا کہ اس نے یہ بات ضرور کہنی ہے۔
کیونکہ بچے سنتے کم اور دیکھتے ذیادہ ہیں۔اور اج کل کے بچوں کی ایک عادت جو میری نظر میں اچھی ہے کہ وہ فرمانبرداری اور تابعداری کے تالوں میں زبانوں کو بند نہیں رکھتے،کہ ماں باپ کی ہر جائز و ناجائز کو حکم خداوندی سمجھ لیں۔۔ماں باپ بھی انسان ہوتے ہیں وہ بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔تو ادب سے ان کے ساتھ بحث مباحثہ کر لینا ٹھیک ہوتا ہے ،نہ کہ ادھر ادھر انکی غیبتیں کرتے رہنا۔۔
ہاں وہ پیتے ہیں،،،میں پیار سے اسکا ہاتھ سہلایا تا کہ بات کا اثر زیادہ ہو۔۔۔
پر،،،،،
انہیں سمجھانے کو انکی آپ کی ماما جیسی ماما نہیں تھی۔انکی ماما گاوں کی سادہ مزاج عورت تھی جو خود جیسی سادہ اور بھولی تھی،ویسا ہی سب کو سمجھ لیتی تھی۔تمھارے پاپا نے بتایا کہ انکو ابا سے بارہا ماریں پڑتی تھیں جب کبھی سگریٹ پیتے دیکھ لیتے تھے۔کیونکہ انکے والد خود سگریٹ نہیں پیتے تھے۔مگر آپ کے پاپا اپ کو کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ کہ وہ جو کام خود کرتے ہیں اس سے تمھیں کیسے روک سکتے ہیں۔۔مگر انہیں افسوس ہے کہ انکو کسی نے سمجھایا ہی نہیں تھا۔ ،بلکہ مار کے ڈرایا تھا۔جس سے وہ اور چڑ جاتے تھے۔ماں باپ کا کام اچھے اور برے کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے،اولاد کی مرضی کہ وہ جو مرضی راہ چن لے۔اب تمھارا کام ہے کہ سگریٹ پینا چھوڑ دو یا اگے بڑھتے جاو اور سادے سگریٹ سے بھرے سگریٹ پیو،اور کل کو اپنی اولاد کو نشے سے بھی منع نہ کر سکو۔
اتنا کہہ کر میں اسے سر پہ بوسہ دے کر چلی آئی۔۔
تین دن بعد وہ ایا ،میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ میں آہستہ آہستہ چھوڑ دونگا،میرا وعدہ ہے۔۔۔پھر ہنس کر شرارت سے بولا کہ میں کل کو اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہوں گا۔۔۔
میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ جس نے میری دعاوں کی لاج رکھ لی۔کوشش اور دعا سے سب بدلنا ممکن ہے، چاہے اپنے حالات ہوں یا دوسروں کے دل و سوچ۔۔۔۔۔

Share on:

Leave a Comment